از قلم: رباب ملکوتی۔جامعۃ المصطفی العالمیہ
أيحَسَبُ الْانسَانُ أَن يُترْكَ سُدى (سورۃ القیامۃ/36)
’’کیا انسان یہ خیال کرتاہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیاجائے گا؟‘‘
انسان کو ایک معاشرتی حیوان سے تشبیہ دی گئی ہے مگر چونکہ وہ نور عقل اور نعمت اختیار کا مالک ہے لہذا جوابدہ مخلوق ہے اور اسی اعتبار سے وہ تہذیب و تربیت کو قبول کرنے والا وجود ہے۔
وظیفہ یعنی فرض و ذمہ داری
انسان کا جہان زندگانی اور اخروی کی شناخت حاصل کرنا ایک مسلم امر ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے اور اسی میں انسان کی فلاح پوشیدہ ہے۔اخلاقی اقدار، رہن سہن اور انفرادی و اجتماعی معاملات دراصل انسانیت کے اصول اور فطری بنیادوں کی حیثیت رکھتی ہیں اور انسانی زندگی کا اہم اصول انسان کا اپنی ذمہ داریوں کی شناخت، مسئولیت پذیری اور ان پر عمل پیرا ہونا ہے۔ان سب اعمال کی جزا و سزا خود دونوں جہانوں میں ملے گی۔خود انسانیت کے اوج اور پسماندگی کے اسباب انسانوں اور اقوام کا اپنے عقائد، اخلاق اور وظائف پر عمل پیرا ہونا ہے اور انسان اپنی دی گئی مسئولیت پر عمل کر کے روشن مستقبل اور امن و امان کا حامل معاشرہ اور دنیاوی و اخروی سعادت حاصل کرسکتا ہے۔صحیح بخاری میں حدیث نبوی ﷺ نقل ہے:
کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیته۔
’’تم میں سے ہر ایک نگھبان ہے اور اس سے ماتحت افراد کے بارے میں سوال ہوگا۔‘‘
انسانی موفقیت کے اہم ارکان سورہ عصر سے لیے جاسکتے ہیں۔
• ایمان:جو خدا ترس ہوگا ،وہ کبھی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔
• عمل صالح:با ایمان انسان انفرادی و اجتماعی وظایف پر عمل کرے گا۔
• حق کی وصیت: با ایمان و با عمل انسان ہمیشہ الہی قوانین کو معاشرے میں رائج کرنے کی کوشش کرے گا۔
• صبر کی وصیت: اور اسی طرح ایسا انسان نا ملائم حالات میں بھی صبر سے کام لے گا۔
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلىَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَأَبَينَْ أَن يحَمِلْنهَا وَ أَشْفَقْنَ مِنهْا وَ حَمَلَهَا الْانسَنُ إِنَّهُ كاَنَ ظَلُومًا جَهُولا. (سورہ احزاب/72)
’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو ان سب نے اسے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا، انسان یقینا بڑا ظالم اور نادان ہے۔‘‘
دراصل انسان ایک معاشرے میں رہتے ہوئے قوانین پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہےورنہ معاشرے میں حرج و مرج لازم آئے گا اور وہ ظلم و زیادتی کا شکار ہوجائے گا۔ جبکہ آیت کی رو سے مسئولیت قبول کرنا انسان کی پر افتخار ترین صفت ہے کیونکہ وہ ارادہ و عقل کا حامل وجود ہے۔علامہ طباطبائی تفسیر "المیزان" میں اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ:
’امانت‘ یعنی ولایت الہیہ اور استکمال حقائق دین،علم و عمل کا حقدار اور استعداد، بشر(انسان) کے علاوہ کسی اور موجود میں صلاحیت نہیں کہ یہ سب قبول کرسکے۔
پس مندرجہ بالا گفتگو کا ماحصل یہ ہوا کہ ’’شناخت وظیفہ‘‘ اور ’’مسئولیت پذیری‘‘ دو اہم اصول ہیں جنکی رعایت ہر انسان کیلیے ضروری ہے، کیونکہ اگر ہم اسکا خیال نہیں رکھیں گے تو انسانی زندگی نا انصافیوں اور نا منظم حالات سے دوچار رہے گی جسکی سزا دنیا اور آخرت دونوں میں بھگتنی پڑے گی کیونکہ عہد خدا کے بارے میں سوال ہوگا اور یہ تمام وظایف عہد کا درجہ رکھتے ہیں۔
وَ أَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كاَنَ مَسُْولا۔ (سورۃ الاسراء/34)
’’اپنے عہدوں کو پورا کرو کہ بیشک عہد کے بارے میں سوال ہوگا۔‘‘
آخر میں خداوند عالم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ، ہمیں قوانین الہیہ کو سمجھنے،انکی رعایت کرنے اور انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں کو بطور احسن انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ یہ دنیائے فانی بھی امن و محبت کا گہوارا بنی رہے اور ہم جہان آخرت میں بھی سرخرو رہیں۔